تھی بے قراری
تھی بے قراری یوں گفتار کے ساتھ
جان آگئ لب پہ اظہار کے ساتھ
حسن ترا اور سے اور ہوا
بڑھتا ہے ہر لمحہ رفتار کے ساتھ
رشک گوارا تو اتنا بھی نہیں
خواب میں ملتے ہو اغیار کے ساتھ
بت وہ برہمن سے ملتا نہیں جب
دار کو ملتے ہیں زنار کے ساتھ
سن کبھی فریاد میری یا نصیب
جوڑ دے کمبخت کو یار کے ساتھ
غنچہ دہن دیکھوں کیسے گلِ تر
پھر بھی چھپاتے ہو منہ آڑ کے ساتھ
زخمی بدن کو ملے حامی بہت
کون ہے مجروحِ افکار کے ساتھ
کیا ہوا جو علم میں بڑھ گئے ہم
جہل بھی بڑھتا ہے ادوار کے ساتھ
عشق لگے گا ترے ہاتھوں بھی گر
عقل کے ہو دستبردار کے ساتھ
حال سنانے سے کب دکھ ہوا کم
دل کیا بہلاتے اشعار کے ساتھ
سچ سے وہ اے *رند* پھر روٹھ نہ جاۓ
شکوے سنانا مگر پیار کے ساتھ