Add To collaction

تھی بے قراری




تھی بے قراری یوں گفتار کے ساتھ
جان آگئ لب پہ اظہار کے ساتھ

حسن ترا اور سے اور ہوا
بڑھتا ہے ہر لمحہ رفتار کے ساتھ 

رشک گوارا تو اتنا بھی نہیں 
خواب میں ملتے ہو اغیار کے ساتھ

بت وہ برہمن سے ملتا نہیں جب
دار کو ملتے ہیں زنار کے ساتھ

 سن کبھی فریاد میری یا نصیب
جوڑ دے کمبخت کو یار کے ساتھ 

غنچہ دہن دیکھوں کیسے گلِ تر
پھر بھی چھپاتے ہو منہ آڑ کے ساتھ

زخمی بدن کو ملے حامی بہت 
کون ہے مجروحِ افکار کے ساتھ

کیا ہوا جو علم میں بڑھ گئے ہم
جہل بھی بڑھتا ہے ادوار کے ساتھ 

عشق لگے گا ترے ہاتھوں بھی گر
عقل کے ہو دستبردار کے ساتھ

حال سنانے سے کب دکھ ہوا کم
دل کیا بہلاتے اشعار کے ساتھ

سچ سے وہ اے *رند* پھر روٹھ نہ جاۓ
شکوے سنانا مگر پیار کے ساتھ





   15
0 Comments